یہ تقریباً بارہ سال پرانی بات ہے جب بھارت نے کولکتہ میں آسٹریلیا کے خلاف کھیلے جانے والے ٹیسٹ میچ میں تاریخی فتح حاصل کی تھی۔
اس کے اگلے ہی میچ میں ہار کے دہانے پر کھڑی
بھارتی ٹیم کو وی وی ایس لکشمن اور راہول ڈراوڈ کی 376 رنز کی اننگز نے
مسلسل سولہ میچوں میں فتح حاصل کرنے والی آسٹریلیا کی ٹیم کی اس سلسلہ وار
جیت کو روک دیا۔س کے ایک ہفتے بعد چنئی میں سچن تندولکر کے شاندار سنچری نے بھارت کو اس سيریز میں فتح سے ہمکنار کیا۔
لیکن جیسا کہ ہونا لازمی تھا آج بھارت کے پاس ایسے بڑے بیٹسمین موجود نہیں ہیں۔
اس دوران بھارت کو ٹیسٹ کرکٹ میں نمبر ایک کا درجہ
دلانے والے اور ورلڈ کپ جیتنے میں اہم کردار ادا دلانے والے بیٹسمین ورندر
سہواگ، گوتم گمبھیر اور یوراج سنگھ کی عمر تیس کے آس پاس کی ہو گئی ہے۔
ایسے میں ہندوستانی کرکٹ کی قیادت کرنے کی ذمہ داری ویرات کوہلی پر آ جاتی ہے اور جو اس کے لیے تیار بھی ہیں۔
بی بی سی سپورٹس سے بات چیت کرتے ہوئے ویرات کوہلی
نے کہا ’کسی نہ کسی وقت پر نوجوان کھلاڑیوں کو آگے آنا ہی ہوگا۔ اس تبدیلی
کو روکا نہیں جا سکتا ہے اور ہمیں آنے والے چیلنجوں کے لیے خود کو تیار
کرنا ہوگا۔‘
حالیہ دنوں میں ویرات کوہلی کافی اچھی فارم میں
نظر آئے ہیں۔ ایک روزہ بین الاقوامی میچز میں انہوں نے پچاس کی اوسط سے رن
بنائے ہیں اور چار ٹیسٹ میچوں میں دو سنچری اور تین نصف سنچریاں بنائی ہیں۔
ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں بھی انہوں نے سپر -8 میں پاکستان کے خلاف 78 رنز بنائے تھے۔
سابق کرکٹر سنیل گواسكر جہاں انہیں بھارتی کرکٹ بیٹنگ کا مستقبل کہتے
ہیں جبکہ ساتھی کھلاڑی اشون کوہلی کے مطابق ویرات اپنے آپ کو بھارتی ٹیم کے
ایک اہم کھلاڑی کے طور پر منا چکے ہیں۔
اشون کہتے ہیں ’وہ گزشتہ دو سالوں سے ہمارے اہم
بیٹسمین ہیں۔ انہوں نے ہر بار اپنے آپ کو ثابت کیا ہے۔ انہوں نے اپنے
کیریئر کی شروعات میں کافی اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے اور مجھے پوری
امید ہے کہ وہ اگلے پانچ چھ سالوں تک ایسا ہی کھیل کھیلتے رہیں گے۔‘
جنوبی افریقہ کے کوچ گیری كرسٹن نے کوہلی کو آگے
بڑھتے دیکھا ہے۔ ’اس نے اپنے کھیل پر کافی کام کیا ہے اور آج بین الاقوامی
کرکٹ کی دنیا میں انہوں نے ایک بلے باز کے طور پر بڑا مقام حاصل کیا ہے۔ وہ
ایک ایسے کھلاڑی ہیں جو جلدی آؤٹ نہیں ہوتے۔‘
اپنے دلچسپ کھیل اور اعتماد کی وجہ ویرات کوہلی
دھیرے دھیرے ٹیم میں سچن کی جگہ لیتے جا رہے ہیں۔ ان کے پاس ڈھیروں سپانسرز
ہیں، وہ ٹی وی پر چھائے رہتے ہیں اور ایشیا بھر میں آپ کہیں بھی ان کے بڑے
بڑے اشتہار دیکھ سکتے ہیں۔
ویرات کوہلی کہتے ہیں ’میں نے اس پل کا ہمیشہ سے
انتظار کیا ہے۔ میں صرف ٹیم کا حصہ نہیں بننا چاہتا بلکہ میں ٹیم کا اہم
بیٹسمین بننا چاہتا ہوں۔‘
لیکن تندولکر اور ڈراوڈ جیسے کھلاڑیوں سے کیے جانے
والے موازنے کا وہ کیسے مقابلہ کریں گے؟ اس پر ویرات کہتے ہیں ’لوگوں کی
مجھ سے امیدیں ہیں اور مجھے دباؤ کم اور فخر کا احساس زیادہ دلاتا ہے۔‘
ویرات کے مطابق یہ دباؤ انہیں بہتر کارکردگی کے
لیے حوصلہ افزائی کرتا ہے۔ ’لوگوں کا مجھ پر جو اعتماد ہے میں اسے میدان پر
اتارنے کی کوشش کرتا ہوں۔ مجھے خوشی ہے کہ میں یہ کر پا رہا ہوں اور آگے
بھی کرتا رہوں گا۔‘
کوہلی کا اب تک کا بین الاقوامی کیریئر تنازعات
میں بھی گھرا رہا ہے۔ ان پر دسمبر میں سڈنی میں ہونے والے دوسرے ٹیسٹ میچ
میں آسٹریلیا کے مداحوں کو برا بھلا کہنے پر جرمانہ بھی کیا گیا تھا۔
اس کے علاوہ ایڈیلیڈ میں اپنا پہلی ٹیسٹ سنچری بنانے کے بعد زیادہ خوش ہونے کے لیے بھی ان پر تنقید کی گئی تھی۔
آئی پی ایل مقابلے میں بنگلور رائل چیلنجرز کی ٹیم میں ان کے ساتھی
آسٹریلوی کھلاڑی ڈرك نینس کے مطابق ’پہلے کے ہندوستانی کھلاڑیوں کے مقابلے
میں ان کا مزاج بالکل الگ ہے۔ اگر آپ ان پر حملہ کریں گے تو وہ بھی بدلے
میں ایسا ہی کریں گے۔ وہ کرکٹ کی پچ میں لڑنے سے نہیں ڈرتے۔ میرے خیال سے
شاید یہی وہ وجہ ہے جو وہ میدان پر زیادہ سے زیادہ چیلنجوں کا سامنا کر
سکتے ہیں۔ وہ ایک سپر اسٹار ہیں۔‘
اور جیسے جیسے انگلینڈ احمد آباد میں ہونے والے
اپنے پہلے ٹیسٹ میچ کی تیاری کر رہا ہے، کوہلی نے بھی اپنا ہدف مقرر کر لیا
ہے۔ ’یہ بے حد ضروری ہے۔ اچھی ٹیموں کے خلاف رن بنانا ہمیشہ اچھا ہوتا ہے۔
ہم ان کا اچھی طرح سے استقبال کریں گے۔‘
ویرات کوہلی چاہتے ہیں کہ وہ ایک کھلاڑی کے طور پر
مزید بہتر کام کریں۔ وہ چاہتے ہیں کہ بھارتی کرکٹ ٹیم کے عظیم کھلاڑیوں کی
صف میں شامل ہو سکیں۔
ان کے مطابق تندولکر، لکشمن اور دراوڑ نے جو کام
بھارتی کرکٹ کے لیے کیا اگر یہ ٹیم اس کا ساٹھ سے ستر فیصد بھی کام کر پاتی
ہے تو یہ ٹیم کے لیے بہت اچھا ہوگا۔
ایسے میں یہ ضروری ہے کہ انگلینڈ کی محتاط ہو جائے۔
0 comments:
Post a Comment